add

AIOU Admission Method in URDU

                     


 اگر آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا ہے
تو ان غلطیوں سے بچیں

👇

"داخلہ حاصل کرتے ہوئے طالب علم کی طرف سے کی جانے والی غلطیاں جن کی وجہ سے طالب علم کا داخلہ ممکن نہیں ہو پاتا یہ اعتراض عائد کر دیا جاتا ہے"

1- طالب علم جب بھی داخلہ کے لئے آنلائن درخواست دیتا ہے تو وہ کسی ایسی کمپیوٹر شاپ، نام نہاد جاب سینٹر، اکیڈمیز، یا نام نہاد ایجنٹ مافیا کے ذریعے اپنا داخلہ بھیجتا ہے تو وہ درخواست آنلائن دائر کرنے کا بھاری بھرکم معاوضہ طلب کرتے ہیں جو کہ کسی طرح سے قانونی طور پر جائز نہیں۔

2-آنلائن درخواست دیتے ہوئے داخلہ پورٹل پر طالب علم صرف اور صرف اپنا EMAIL یا اپنا ذاتی موبائل نمبر پر اپنا اکاؤنٹ بنوائے تا کہ آپکے پاس آپکا "USERNAME اور PASSWORD" موجود ہو۔ اگر کسی شاپ یا جاب سینٹر نے اپنا ذاتی نمبر یا EMAIL دے دیا تو وہ USERNAME اور PASSWORD اُسکے پاس رہ جائے گا۔ جس کے نتیجہ میں طلب علم خود سے نہ تو اپنا پورٹل دیکھ سکے گا اور یونیورسٹی کی جانب سے اگر کوئی اعتراض عائد کیا گیا ہو گا یہ داخلہ کنفرمیشن کے بعد طالب علم کو اُسکا STUDENTID اور نیا PASSWORD برائے CMS پورٹل دیا جائے گا وہ اس کی دسترس میں نہیں رہے گا۔ لہٰذا طالب علم اس غلطی سے ہر ممکن اجتناب کریں۔
3- داخلہ درخواست آنلائن دائر کرنے وقت طالب علم کمپیوٹر شاپ، جاب سینٹر وغیرہ وغیرہ پر نہ تو اپنا ذاتی نمبر درج کرواتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر کا مکمل پتہ دیتے ہیں۔ اس کوتاہی کی وجہ سے وہ شاپ، جاب سینٹر والا ایجنٹ/بندہ اپنی شاپ کا موبائل نمبر اور اپنی شاپ کا ایڈریس دے دیتا ہے جو کہ "قانونی طور پر جرم ہے (اور آپکا اپنا نمبر اپنے پاس کسی ریکارڈ میں لکھ لیتا ہے تا کہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر سکے جس کا ذیل میں ذکر کیا جائے گا) " کیوں کہ فارم آنلائن پُر کرتے ہوئے آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ "کیا دی گی معلومات درست ہیں"؟ اور آپ کی نیابت میں شاپ والا یا جاب سینٹر والا بندہ آنلائن درخواست دیتا ہے تو وہ "دی گئی معلومات کو درست قرار دے کر آخری مراحل میں آنلائن درخواست جمع (submit) کروا دیتا ہے۔ جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ آپکا موبائل نمبر اور ڈاک کا پتہ آپکا خود کا نہیں ہوتا بلکہ اس شاپ یا جاب سینٹر والے کا ہوتا ہے۔ ایسا کرنا یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق غلط ہے اور آپکا داخلہ میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔
4- اگر کوئی شاپ یا جاب سینٹر والا اپنا موبائل نمبر یا ڈاک کا پتہ اپنا لکھ دیتا ہے تو طالب علم کی یہ ذمےداری ہے کہ وہ ہر صورت اپنا ذاتی موبائل نمبر اور ڈاک کا مکمل اور درست پتہ لکھوائیں گے۔
5- اپنا ذاتی نمبر یہ ڈاک کا پتہ نہ لکھوانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کے جب یونیورسٹی طالب علم کو کتابیں بھیجتی ہے تو ڈاکیا وہ کتابیں اُسی شاپ یا جاب سینٹر کے پتہ پر پہنچائے گا۔ اور پھر طالب علم کے ذاتی نمبر پر کال کر کے اس سے کتابیں فراہم کرنے کا مزید معاوضہ طلب کیا جاتا ہے جو کے سرا سر زیادتی اور قانوناً جرم ہے کیوں کہ طالب سے یونیورسٹی فیس طلب کرتی ہے اس میں کتابیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ لہٰذا طالب علم سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جاتی ہے۔
6- آنلائن درخواست دائر کرتے وقت بہت سے طالب علم اپنی "اصل اسناد " اپلوڈ نہیں کرواتے/کرتے، مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اکثر طالب علم بورڈ کی ویبسائٹ پر موجود ویب رزلٹ (نتیجہ) کا اسکرین شاٹ لیے کر اپلوڈ کر دیتے ہیں، جس کے نتیجہ میں یونیورسٹی کا شعبہ داخلہ اعتراض عائد کر دیتا ہے اور داخلہ میں رکاوٹ تب تک قائم رہتی ہے جب تک اصل سند جو امتحانی بورڈ سے حاصل کی گئی ہو وہ آنلائن داخلہ پورٹل میں اپلوڈ نہیں کی جاتی۔
7- داخلہ نہ ہونے کی وجہ ایک یہ ہے کہ طالب علم جو اسناد، شناختی کارڈ اور تصویر آنلائن پورٹل پر اپلوڈ کرتا ہے یا کرواتا ہے وہ اچھی طرح سے اسکین (SCAN) نہیں کی ہوتی جس کی وجہ سے شعبہ داخلہ کو طالب علم کے کوائف پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
8- طالب علم جب بھی اپنا نامکمل رزلٹ یا نا مکمل ٹرانسکرپٹ اپلوڈ نہیں کرتے تب بھی داخلہ پر اعتراض عائد کر دیا جاتا ہے۔
9- اعتراض دور کرنے کے لیے صرف 7 دن دیے جاتے ہیں اُسکے بعد طالب علم اپنا اعتراض نہیں دور کروا سکتے۔
10- اپنے تعلیمی کوائف غلط لکھنے سے بھی داخلہ ممکن نہیں ہو سکتا۔
11- اکثر طالب علم اپنی پاسپورٹ سائز نیلے رنگ کے پسں منظر میں تصویر اپلوڈ کرنے کی بجائے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے اپنی "سیلفی تصویر" لے کر اپلوڈ کر دیتے ہیں جو کہ داخلہ کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔
12- آنلائن داخلہ حاصل کرتے وقت طالب علم اپنی پسند کا ڈگری پروگرام کا انتخاب کرے اور انتخاب کے دوران اپنی تعلیمی اہلیت کے بارے میں مکمل معلومات اور تصدیق کر لے۔ غلط پروگرام کے انتخاب کی صورت میں طالب علم خود ذمےدار ہو گے۔
13- آنلائن داخواست برائے داخلہ مکمل ہونے کے بعد داخلہ پورٹل خودکار نظام کے تحت "فیس چالان بنا کر دیتا ہے" جس میں یونیورسٹی کی جانب سے مکمل فیس/سیمسٹر لکھی گئی ہوتی ہے۔ اکثر شاپ اور جاب سینٹر اور ایجنٹس کمپیوٹرائزڈ فیس چالان پر لکھی گئی فیس سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ قانوناً جرم ہے اور شکایات موصول ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ لہذا طالب علم سے گزارش کے کے ہوشیار رہے اور داخلہ حاصل کرنے سے پہلے اپنی پسند کے ڈگری پروگرام کی فیس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیں۔
عزیز طالب علم ان غلطیوں سے ہر صورت میں آگاہ رہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ان غلطیوں سے بچیں اور اپنی داخلہ درخواست بہتر اور غلطیوں سے پاک طریقہ سے دائر کروا سکیں تو "علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ریجنل سینٹر " تشریف لائیں تا کہ آپکی بہترین اور بھرپور رہنمائی کی جا سکے اور آپکو داخلہ درخواست دائر کرنے کے لیے بلا معاوضہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
نوٹ:
خِزاں 2025 کے داخلہ یکم جولائی 2025 سے آغاز ہو رہے ہیں۔




For more update Keep Visit OUR Site AIOU FARHAN STUDIO

Post a Comment

0 Comments